Welcome to Jamia-Tul-Madinah Global Website
Founder Message

Maulana Ilyas Qadri

جامعۃُ المدینہ کا آغاز اور پہلی دستار فضیلت

جامعۃُ المدینہ کا آغاز:1981ء میں دعوتِ اسلامی کے آغاز سے لے کر 1994ء تک دعوتِ اسلامی میں کوئی باقاعدہ تعلیم و تعلم کے لئے جامعات وغیرہ نہیں تھے البتہ مدارسُ المدینہ قائم ہوچکے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب محسوس کیا گیا کہ اب دعوتِ اسلامی کے جامعات بھی ہونے چاہیئں تو وقت کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے ستمبر1994ء کو کراچی کے علاقے نیوکراچی گودھرا کالونی میں صبح کے اوقات میں درسِ نظامی کی کلاس کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ تقریباً 50 سے زائد طلبۂ کرام نے اس اوّلین درجے میں حصولِ علم کا آغاز کیا۔اس ادارے کا نام ابتدا میں ’’مدرسۃُ المدینہ“ تھا جو چند سال بعد ”جامعۃُ المدینہ“ میں تبدیل ہوگیا۔

رات میں درسِ نظامی کا آغاز: گودھرا کالونی میں درسِ نظامی شروع ہونے کے چند ماہ بعد کراچی کے علاقے سبز مارکیٹ(شُو مارکیٹ گارڈن) میں رات کے اوقات میں درسِ نظامی کی کلاس شروع ہوئی، تقریباً60 اسلامی بھائیوں نے یہاں درسِ نظامی شروع کیا۔ جو اسلامی بھائی دن میں اپنی معاشی مصروفیات کے سبب داخلہ نہیں لے سکتے تھے ان کے لئے درسِ نظامی کرنے کا یہ سنہری موقع تھا۔

آزمائشوں بھرا دور:کوئی بھی کام جب نیا شروع کیا جائے تو شروع میں مشکلات اور پریشانیوں کا آنا ایک فطری بات ہے۔ آج جامعۃ ُالمدینہ میں طعام، رہائش اور تعلیمی اُمور وغیرہ سے متعلق جو بہترین نظام اور سہولیات دستیاب ہیں، ابتدائی ایّام میں ان کا عشرِ عشیر بھی نہیں تھا بلکہ ان سہولیات کا تصوّر تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کے باوجود اس وقت کے اساتذۂ کرام اور طلبۂ عظام نے کھانے پینے اور رہائش وغیرہ سے متعلق آزمائشوں پر صبر و ہمت سے کام لیااور استقامت کے ساتھ علمِ دین کے اس کاروان کو آگے بڑھاتے چلے گئے۔

امیرِ اہلِ سنّت کی خاص نگاہِ کرم: امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ ایک علم دوست شخصیت کے مالک ہیں،علَما اور طلبہ سے آپ کی مَحبّت مثالی ہے۔آپ کی صحبت سے علمِ دین کے سوتے پھوٹتے اور حصولِ علم کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔آغاز سے ہی جامعۃُ المدینہ (اُس وقت کے مدرسۃ المدینہ)پر آپ کی خاص نگاہِ کرم تھی۔وقتاً فوقتاً جامعۃُ المدینہ میں تشریف لے جانا یا اپنے گھر پر وقت عطا فرمانا،اساتذہ و طلبہ کی حوصلہ افزائی فرمانا، مشکلات کے حل کی کوشش فرمانا اور ہمت بڑھانا آپ کا معمول تھا۔ آپ اساتذہ کو طلبہ پر شفقت کی تاکید فرماتے جبکہ طلبہ کو استقامت کے ساتھ حصولِ علم کا ذہن دیتے۔

گودھرا کالونی سے گلستانِ جوہر منتقلی:ابتدا میں چونکہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ اساتذۂ کرام کی کمی تھی اس لئے دیگر سنّی مدارس سے وابستہ بعض علمائے کرام نے بھی جامعۃُ المدینہ میں تدریس فرمائی جبکہ بعض قابل اور محنتی طلبہ نے چھوٹے درجات میں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔

بعض طلبہ دن کے اوقات میں خود جامعۃُ المدینہ میں پڑھتے اور رات میں سبز مارکیٹ کے جامعۃُ المدینہ میں پڑھاتے، اس طرح رفتہ رفتہ جامعۃُ المدینہ میں درجات اور طلبہ کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ کچھ ہی عرصے بعد اکتوبر 1997ء میں جامعۃُ المدینہ کو گودھرا کالونی سے گلستانِ جوہر منتقل کر دیا گیا جہاں نسبتاً بڑی جگہ دستیاب تھی اور سہولیات بھی قدرے بہتر تھیں۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دنوں درجات کے لحاظ سے الگ الگ نصاب نہیں تھا بلکہ نصاب میں شامل کتابیں مکمل پڑھائی جاتی تھیں، ایک کتاب ختم ہوتی تو پھر دوسری کتاب شروع کی جاتی تھی۔

دیگر شہروں میں جامعۃُ المدینہ کی شاخیں: وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جامعۃُ المدینہ کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔ دعوتِ اسلامی کا مدنی کام چونکہ اُس وقت بھی پاکستان کے اکثر شہروں میں ہورہا تھا اس لئے دیگر شہروں میں بھی اسلامی بھائی علمِ دین کے اس سمندر سے پیاس بجھانے کی تمنا رکھتے تھے۔ آخر کار وہ وقت بھی آیا جب16ذُوالقعدہ1416ھ مطابق 5اپریل 1996ء کوپنجاب کے شہر لاہور کے علاقے ”کاہنہ نو“ میں جامعۃُ المدینہ کا آغاز ہوگیا۔لاہور کے بعد فیصل آباد،پھر ملتان اور اس کے بعد گجرات میں جامعۃُ المدینہ کی شاخوں کا آغاز ہوا اور اَلحمدُ لِلّٰہ جامعاتُ المدینہ میں اضافے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

فیضانِ مدینہ میں جامعۃُ المدینہ کا آغاز:جنوری 2001ء میں دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ پرانی سبزی منڈی کراچی میں بھی درسِ نظامی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان دنوں فیضانِ مدینہ میں موجود جامعہ کا نام ”جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ“ تھا جبکہ گلستانِ جوہر میں واقع جامعہ کا نام ”جامعۃُ المدینہ گلستانِ جوہر“ تھا۔ دونوں جامعات کے انتظامات کے لئے الگ الگ مجلس قائم تھی لیکن بعد میں دونوں جامعات کے لئے ایک ہی انتظامی مجلس بنا دی گئی۔

اسلامی بہنوں میں جامعۃُ المدینہ کا فیضان:علمِ دین سے محبت، اس کے حصول کے لئے کوشش، علم حاصل کرکے اس پر عمل کرنا ا ور دوسروں تک پہنچانا،یہ تمام سعادتیں مَردوں کی میراث نہیں بلکہ مسلمان خواتین بھی ان کی حقدار ہیں۔ دورِ رسالت سے لے کر آج تک مسلمان خواتین میں حصولِ علمِ دین کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ جب دعوتِ اسلامی کے تحت درسِ نظامی کا فیضان بصورتِ جامعۃُ المدینہ عام ہونا شروع ہوا، تو بھلا اسلامی بہنیں اس میدان میں کیوں پیچھے رہتیں؟

1999ء میں وہ مبارک گھڑی بھی آئی کہ جب کراچی کے علاقے بابری چوک (گرومندر) پر واقع جامع مسجد کنزُالایمان سے ملحق مدرسے میں اسلامی بہنوں کیلئے جامعۃُ المدینہ کی پہلی شاخ کا آغاز ہوا جہاں 2 کلاسز میں اسلامی بہنیں درسِ نظامی (عالمہ کورس) کرنے لگیں۔اس کے بعد دوسری شاخ اسی سال لاہور کے علاقے مغلپورہ میں شروع ہوئی اور پھر اَلحمدُ لِلّٰہ یہ سلسلہ ہر سال بڑھتا ہی گیا۔

جامعۃُ المدینہ میں اوّلین دورۂ حدیث: اللہ پاک کے کرم سے وہ وقت بھی آگیا جب جامعۃُ المدینہ کے اولین درجے کے طلبہ نے موقوف علیہ مکمل کیا اور گلستانِ جوہر میں دورۂ حدیث کا آغاز ہوا۔ دورۂ حدیث میں پڑھانے کے لئے جامعۃُ المدینہ کے بڑے اساتذہ کے علاوہ شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی کوشش کی بدولت جامعہ اشرفیہ مبارک پور انڈیا سے شیخُ الحدیث حضرت علّامہ مولانا شمسُ الہدیٰ مصباحی صاحب دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ بھی تشریف لائے۔ دورۂ حدیث شریف کے اس پہلے درجے کی فراغت سال 2000ء میں ہوئی۔ جامعۃُ المدینہ فیضانِ عثمانِ غنی (گلستانِ جوہر) میں سال 2004ء تک دورۂ حدیث شریف کا درجہ جاری رہا جبکہ تعلیمی سال 2004ء/ 2005ء کا درجہ دورۂ حدیث شریف عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں منتقل ہوگیا۔

جامعۃُ المدینہ میں اولین اجتماعِ دستارِ فضیلت: امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے یومِ ولادت کے موقع پر 10 شوّالُ المکرم1421ھ مطابق6جنوری2001ء بروز ہفتہ جامعۃُ المدینہ کا اولین اجتماعِ دستارِ فضیلت ہوا جس میں درسِ نظامی مکمل کرنے والے 37 اسلامی بھائیوں کے سر پر عمامہ شریف سجایا گیا۔اس موقع پر شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ اورمرکزی مجلسِ شوریٰ کے اولین نگران حاجی قاری محمد مشتاق عطاری رحمۃُ اللہِ علیہ کے علاوہ کئی علمائے اہلِ سنّت بھی موجود تھے۔

اجتماعِ دستارِ فضیلت کے چند دن بعد پیر کالونی کراچی میں واقع امیرِ اہلِ سنّت کے گھر پر فارغُ التحصیل ہونے والے اسلامی بھائیوں کی حاضری ہوئی جہاں تقریباً پوری رات امیرِ اہلِ سنّت نے ان اسلامی بھائیوں کو مدنی پھولوں سے نوازا۔ان 37 اسلامی بھائیوں میں سے اکثر نے آگے چل کر تدریس و تبلیغ اور دعوتِ اسلامی کی اہم ترین ذمّہ داریوں پر خدمات انجام دیں۔ مرحوم رکنِ شوریٰ مفتی محمد فاروق عطاری مدنی رحمۃُ اللہِ علیہ بھی ان اسلامی بھائیوں میں شامل تھے۔

ان اسلامی بھائیوں میں سے کئی مدنی علمائے کرام آج بھی دعوتِ اسلامی میں تدریس وغیرہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ بعض حضرات اہلِ سنّت کے دیگر اداروں میں یا پھر انفرادی طور پر خدمتِ دین میں مصروفِ عمل ہیں۔اللہ کریم ان سب کی دینی خدمات کو درجۂ قبولیت عطا فرمائے۔

شیخُ الحدیث حضرت علّامہ مولانا شمسُ الہدیٰ مصباحی صاحب دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ ایک سال بعد واپس اپنے وطن تشریف لے گئے۔ ان کی واپسی کا منظر بڑا دیدنی تھا، انہیں اشکوں کی روانی میں رخصت کیا گیا۔ طلبہ و دیگر کئی لوگوں نے آپ کو یہیں پاکستان ہی میں قیام فرمانے کی التجا کی لیکن کچھ مجبوریوں کے باعث انہیں تشریف لے جانا ہی تھا۔

مدنی کی اصطلاح: اوّلین اجتماعِ دستارِ فضیلت کے موقع پر شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اعلان فرمایا کہ جامعۃُ المدینہ سے درسِ نظامی مکمل کرنے والے اسلامی بھائیوں کو ”مدنی“ کہا جائے گا۔

اے عاشقانِ رسول !یہ جامعۃُ المدینہ کے آغاز سے لے کر اولین کلاس کے دستارِ فضیلت تک کی اجمالی داستان ہے۔ کسی عمارت کی مضبوطی کا دارومدار اس کی بنیاد پر ہوتا ہے،اگر بنیاد کمزور ہو تو کسی بھی وقت عمارت زمین بوس ہوسکتی ہے۔آج پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں جامعۃُ المدینہ کے ذریعے علمِ دین کا جو فیضان عام ہورہا ہے،یقیناً ا س میں اولین دور کے مشکل وقت میں خدمات انجام دینے والے، قربانیاں پیش کرنے والے اساتذہ اور طلبہ کا بڑا کردار ہے۔ ان میں سے ایک تعدادآج بھی کسی نہ کسی صورت میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں جبکہ بعض اس دنیائے فانی سے دارِ آخرت کی طرف سفر کرچکے ہیں۔

اللہ کریم ان تمام حضرات کی خدمات قبول فرمائے، انہیں ایمان و عافیت کے ساتھ درازیِ عمر بالخیر نصیب فرمائے اور جامعۃُ المدینہ کو دن گیارھویں رات بارھویں ترقّی عطا فرمائے۔ اٰمِیْن