گلوبل ویب سائٹ جامعۃ المدینہ میں خوش آمدید الحاق شدہ (کنزالمدارس بورڈ)
تاریخ : 2024-06-06

علم کے فیضان اور اِس سے محرومی کے نقصان کے بارے میں بُزرگانِ دین کے 4 فرامین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم

شیخ الْاِسلام، امام بُرہانُ الْاِسلام، ابراہیم زَرنُوجی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی تحریر فرماتے ہیں:”علم کو اس وجہ سے شرافت و عظمت حاصل ہے کہ علم ، تقویٰ تک پہنچنے کا وسیلہ ہے جس کے سبب بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حضور بزرگی اور ابدی سعادت کا مستحق ہوجاتا ہے۔“

تعلیم المتعلم طریق التعلم،ص۶

کروڑوں حَنَفِیّوں کے پیشوا حضرتِ سیّدنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ اس بلند مقام پر کیسے پہنچے آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: ”میں نے (اپنے علم سے)دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں بخل نہیں کیااور دوسروں سے اِسْتفَادَہ کرنے (سیکھنے )میں شرم نہیں کی۔“

در مختار،المقدمة،۱/۱۲۷

اولیائے کرام (رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام )کا ارشاد ہے:”صُوْفیِ بے علم مَسْخَرۂ شَیطان اَسْت“یعنی بے علم صوفی شیطان کا مسخرہ ہے۔

فتاویٰ رضویہ،۲۴/۱۳۲

اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ”بے علم مجاہدہ والوں کو شیطان انگلیوں پر نچاتا ہے ،منہ میں لگام ،ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے کھینچے پھرتا ہے۔“

فتاویٰ رضویہ،۲۱/۵۲۸

نیز ارشاد فرماتے ہیں: ”عُلمائے شَریْعَت کی حاجت ہر مسلمان کو ہر آن ہے۔“

فتاویٰ رضویہ،۲۱/۵۳۵

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عُلمائے کرام رحمہم اللہ ُ السلام وارثِ انبیاء ہیں کیونکہ یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی مِیراث یعنی علمِ دین کو حاصل کرتے اور اس کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے آج کل شاید کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امت محبوب صَلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو علمائے کرام رحمہم اللہ ُ السلام سے دور کیا جارہا ہے، ان کے مقام و مرتبے کو مُسلمانوں کے دل و دماغ سے نکالا جارہا ہے، ان کی شان میں لَب کشائی کی جارہی ہے، ان پر اعتراض اور طعن و تنقید کرنے پر ابھارا جارہا ہے بلکہ اب تو معاذ اللہ عز وجل علماءکی توہین و تحقیر تک نوبت آپہنچی ہے جو کہ ایمان کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے۔ یوں بھی جو علمائے کرام رحمہم اللہ ُ السلام کا گستاخ ہوگا وہ ان کی صحبت و فیض سے محروم ہوجائے گا اور جب یہ دونوں چیزیں نصیب نہ ہونگی تو شرعی رہنمائی حاصل ہونا بھی ناممکن ،لہٰذا بے عملیاں کرتے کرتے ایسوں کا کُفر تک جا پڑنا بھی عین ممکن ہے۔

اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ”جاہل   ِبوجہ جہل اپنی عبادت میں سو گُناہ کرلیتا ہے اور مصیبت یہ کہ انہیں گُناہ بھی نہیں جانتا اور عالم ِ دین اپنے گُناہ میں وہ حصہ خوف و ندامت کا رکھتا ہے کہ (اللہ عَزَّ وَجَلَّ )اسےجلد نجات بخشتا ہے۔“

فتاویٰ رضویہ،۲۳/۶۸۷

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ”اس (عالم)کی خطا گیری (بھول نکالنا)اوراس پر اعتراض حرام ہے اور اس کے سبب رَہْنُمائے دین سے کنارہ کش ہونا اور استفادۂ مسائل(مسائل میں رہنُمائی لینا)چھوڑ دینا اس کے حق میں زہر ہے۔“

فتاویٰ رضویہ،۲۳/۷۱۱

 

علَماء کی شان میں 7 فرامین مصطفےٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم

عالم زمین میں اللہ عز وجل کی دلیل و حجت ہے تو جس نے عالم میں عیب نکالا وہ ہلاک ہوگیا۔

(جامع صغیر، ص ۳۴۹، حدیث: ۵۶۵۸)۔

بیشک زمین پر عُلَماءکی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے کائنات کی تاریکیوں میں رَہْنُمائی حاصل کی جاتی ہے تو جب ستارے ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہو جائیں۔

مسند امام احمد ، مسند انس بن مالک، ۴/۳۱۴،حدیث:۱۲۶۰۰

علم کے ساتھ تھوڑا عمل بھی نفع دیتا ہے لیکن جہالت کے ساتھ بہت عمل بھی نفع نہیں دیتا۔

(جامع بیان العلم، ص ۶۵، حدیث:۱۹۷

"اَلْعِلْمُ حَیَاةُالْاِسْلَامِ وَعِمَادُ الْا یْمَانِ" علم اسلام کی زندگی اور دین کا ستون ہے۔

جمع الجوامع، ۵/۲۰۰،حدیث:۱۴۵۱۸

"مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ تَـکَفَّلَ اللهُ بِرِزْقِهٖ" جو شخص علم کی طلب میں رہتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے رِزْق کا ضامن ہے۔

تاریخ بغداد، محمد بن القاسم بن ھشام، ۳/

"مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَلْتَمِسُ فِیْهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهٖ طَرِیْقًا اِلَی الْجَنَّةِ" جو ایسے راستے پر چلے جس میں علم کو تلاش کرے، اس کے سبب اللہ عَزَّ وَجَل اس کیلئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔

مسلم، کتاب الذکر و الدعاء۔۔۔۔الخ ، باب فضل الاجتماع…الخ،ص ۱۴۴۸، حدیث: